حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے خانیوال میں شیعہ سنی اجتماع سے خطاب کیا جس کا انعقاد برادران اہلِ سنت کی جانب سے کیا گیا۔ انہوں نے اہل بیت علیہم السلام کے فضائل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امام احمد بن حنبل نے فضائل صحابہ کے باب میں نواسہ رسول امام حسین علیہ السلام کی فضیلت کو بہت منفرد انداز میں بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق امام حسین علیہ السلام خدا تعالی کی مخلوقات میں وہ عظیم ہستی ہیں کہ اگر کوئی شخص ان کے ذکر و غم کی محفل میں شریک ہو تو خداوند متعال اس وقت کو عبادت اور اس کے ہر نفس (سانس) کو تسبیح شمار کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امام احمد بن حنبل کی یہ بات قابلِ تعجب نہیں ہے کیونکہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے پاک گھرانہ کے لئے اللہ تعالی نے تمام عالم کو خلق فرمایا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ، علی، فاطمہ، حسن و حسین علیہم السلام ہی وہ ہستیاں جو وجہ تخلیق کائنات ہیں۔ باالفاظ دیگر کائنات کا ہر عمل محمدؐ و آلِ محمدؐ کے وسیلہ سے انجام پا رہا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے خطباء، آئمہ مساجد اور علماء اہلِ بیت علیہم السلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے جس کی وجہ سے منبر سے ان کے فضائل کم بیان ہوتے ہیں۔ محمدؐ و آلِ محمدؐ کی سیرت کا مطالعہ انسان کی فکری و قلبی وسعت میں اضافہ کرتا ہے اور معرفت کی پرواز بلند تر ہوتی ہے۔
علامہ امین شہیدی نے عدمِ علم اور جہالت کو معاشرہ کا المیہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ امام علی علیہ السلام جیسی عالی مرتبت شخصیت کو غلو اور تقصیر کی بحث کے ذریعہ متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب کہ خود آئمہ اطہار علیہم السلام نے ان دونوں نظریات کو رد کیا ہے۔ آئمہ معصومینؑ کے مطابق وہ اللہ کے بندے اور اس کی مخلوق ہیں، خدا ان کا خالق و رازق ہے لہذا ان کو خدا جیسا قرار دینا درست نہیں۔ تاہم اس کے بعد ان کے فضائل کے باب میں جو کچھ بھی بیان کیا جائے وہ ان کے مرتبہ سے کم اور وہ اس سے کہیں زیادہ افضل و برتر ہیں۔ یہ اس لئے ہے کیونکہ ہمارا محدود علم اور فہم نبیؐ و آلِ نبیؐ کا اصل مقام سمجھنے سے قاصر ہے۔ انسان کے ظرف میں جتنی گنجائش ہوگی وہ اسی حساب سے ان ہستیوں کے مرتبہ کو قبول کرے گا۔ لہذا کسی کو مقصر یا غالی کہ کر اسے خود سے دور کرنے کی بجائے اہل بیت علیہم السلام کے اصل مقام کے بارے میں بتانا چاہیے۔ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء اللہ کو خدا کی طرف سے انسانوں کو جوڑنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ انسانوں کو لڑانے کا کام فرعون صفت افراد اور ان کے پیروکاروں نے انجام دیا لہذا جو بھی شیعہ، سنی، دیوبندی اور اہلِ حدیث کو فرقہ یا غالی و مقصر کی بنیاد پر لڑانے کی کوشش کرتا ہے، وہ نبی کا پیروکار نہیں بلکہ اپنے پیٹ کا پیروکار ہے۔ منبر سے اپنے مخالف نظریات رکھنے والے لوگوں کو برا بھلا کہنے والے مولوی حضرات کے اجتماع میں لوگ زیادہ ہوتے ہیں لیکن جہاں پر لوگوں کو آپس میں جوڑنے کی بات کی جائے,، وہاں سامعین کی تعداد نسبتا کم ہوتی ہے۔
یاد رکھئے! جس منبر، محراب، مجلس اور مذہبی اجتماع میں قلوب کو جوڑنے کی بات ہوگی تو سمجھ جائیں کہ اس قافلہ کا سفر اللہ اور علیؑ کی طرف ہے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو پھر یہ لوگوں کو اللہ، نبیؐ، علیؑ اور آلِ علیؑ سے دور کرنے کی کوشش ہے۔ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ہستی میں وہ مقناطیسی کشش ہے جو ہر انسان کو اس کے ظرف کے مطابق اپنی طرف کھینچتی ہے۔ جو شخص ایک مرتبہ علیؑ و آلِ علیؑ سے متصل ہو جائے تو ان کے اوصاف بھی اس شخص میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ ان ہستیوں سے دور ہونے والا انسان اندھیرے میں بھٹکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی تک پہنچنے کا راستہ کوئی شارٹ کٹ نہیں، اس کے لئے جو راستہ خود خدا نے معین کیا ہے وہ علیؑ و آلِ علیؑ کے گھرانہ سے ہو کر گزرتا ہے۔ امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ کی بھی یہی روش تھی کہ سب کو ایک دوسرے کے قریب لے کر آئے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ تمام انسانوں کے قلوب کی بنجر زمین پر نبیؐ و آلِ نبیؐ کی محبت کا بیج بو دیا جائے۔ امام علی علیہ السلام کا مقام اتنا بلند و بالا ہے کہ کوئی ناصبی اتنی جرات نہیں کر سکتا کہ ان شان کو گھٹا کر بیان کرے، البتہ ان کے فضائل کے بیان میں ڈنڈی ضرور مارتا ہے۔ ناصبی بغضِ علیؑ کی وجہ سے علیؑ کی شان میں کمی کرتا ہے لیکن جس شخص کی نسل پاکیزہ ہو وہ علیؑ و آلِ علیؑ سے بغض نہیں رکھ سکتا۔
علامہ امین شہیدی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اہلِ منبر کے لئے مطالعہ کرنا ضروری ہے تاکہ نبیؐ و آلِ نبیؐ کے فضائل کو زیادہ سے زیادہ سے بیان کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے قلوب میں علیؑ و آلِ علیؑ کی محبت پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی جائے۔ نبیؐ کے گھرانہ کی محبت، نبیؐ کی محبت کا سب سے اہم جزو ہے اور اس کے بغیر نبیؐ سے محبت نامکمل ہے۔ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے آنے والے وقت اور حالات کو دیکھتے ہوئے مختلف مواقع پر علیؑ و آلِ علیؑ کے فضائل کو بیان کیا۔ یہاں تک کہ آپ نے ”علی مع الحق و حق مع العلی“ کہ کر مولا علی علیہ السلام کو حق اور باطل کے درمیان حدِ فاصل قرار دیا تاکہ اگر رسولؐ کے بعد حق و باطل مشتبہ ہو جائیں تو یہ دیکھا جائے کہ علیؑ کہاں کھڑے ہیں۔
ہمارے ملک میں علیؑ کے فضائل کے مقابلہ میں صحابہ کی توہین کا معاملہ پیش کیا جاتا ہے جو محض شیعہ سنی کو آپس میں لڑانے کا بہانہ ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں کہ کوئی شخص نبیؐ سے منسوب نعلین کا تو احترام کرے لیکن ان کے بچوں اور خانوادہ سے محبت نہ کرے۔ اگر کوئی اسلام لانے کے باوجود نبیؐ کے زمانے میں ان سے اختلاف کی بنیاد پر الگ ہو جائے یا ان کے بعد ان کی آلؑ سے لڑے، ان پر ظلم یا ان کو قتل کرے اور اذیت پہنچائے تو اس سے نبیؐ راضی ہیں نہ ان کے عاشق راضی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ تمام جلیل القدر صحابہ کے پاؤں کی خاک ہماری آنکھوں کا سرمہ ہے لیکن وہ نبیؐ کی آل کے مقابلہ میں نہیں ہیں۔ احادیثِ رسولؐ نے نبی کے گھرانہ کا مقام و مرتبہ طے کر دیا ہے جن کے مطابق یہ گھرانہ انبیاء علیہم السلام کے گھرانوں سے بھی افضل ہے۔ اگر ہم سب اس گھرانہ سے حقیقی معنوں میں جُڑ جائیں تو اللہ کے دشمنوں کے مقابلہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہو سکتے ہیں۔